ذرے ذرے مہہ و خورشید بداماں تیرے

ذرے ذرے مہہ و خورشید بداماں تیرے

آسمانوں سے چلے آئے ثنا خواں تیرے

نعمتیں سورۃ رحمٰن کی لئے بیٹھے ہیں

یہ سمندر یہ پہاڑ اور یہ بیاباں تیرے

سبزہ و گُل سے مزین رہے وادی وادی

فضلِ تازہ سے مہکتے رہیں میداں تیرے

گر کسی جنت ارضی سے بھی لوٹے تو ہمیں

گلستاں جیسے نظر آئے بیاباں تیرے

عظمتیں جو بھی ملی ہیں تری نسبت سے ملیں

کیا فراموش کرے گا کوئی احساں تیرے

تیری مٹی سے جو آتی ہے وہ خوشبو لے کر

اپنے اشعار میں آئے ہیں غزلخواں تیرے

عالمِ خواب میں گزری ہے مسافت ساری

ورنہ رستے تھے ہر اک سمت فروزاں تیرے

خود سے غافل ہیں تو ہے اسکا سبب اور کوئی

تجھ سے غافل تو نہیں چاک گریباں تیرے

صرف اک سر ہی نہیں گرم لہو بھی ہے بہت

اتنے مفلس تو نہیں بے سر و ساماں تیرے

یاد صدیقیؔ

تبصرہ کریں